Header Ads

ads header

دادا، بچوں اور سدھا بابا کی کہانی۔ | Grandfather , Children and Sidhbaba Story in Urdu

دادا، بچے اور سدھ بابا ہندی کہانی
دادا، بچوں اور سدھ بابا کی کہانی


دادا، بچوں اور سدھا بابا کی کہانی۔ | Grandfather , Children and Sidhbaba Story in Urdu


کچھ گاؤں ست پورہ   پہاڑی کے دامن میں واقع تھے   ، گاؤں کے لوگ اپنے جانوروں کو  چرانے کے لیے جنگل میں لے جایا کرتے تھے ۔ اسی جنگل میں دریا کے کنارے ایک آم کے درخت کے نیچے کچھ پتھر رکھے ہوئے تھے۔تمام چرواہے   ان پتھروں کو سجدہ کیا کرتے تھے، جنہیں وہ سدھ بابا کی شکل سمجھتے تھے۔جب وہ بھٹک جاتے تھے۔ وہ لوگ سدھ بابا سے اپنے جانور کے صحیح سلامت واپس آنے کی   دعا کرتے تھے اور ان کا جانور کچھ دیر بعد صحیح سلامت واپس  آجاتا تھا ۔ اسی طرح جب کوئی شخص جنگل میں بھٹک جاتا تھا تو  سدھ بابا کو یاد کرکے بھی  کوئی نا معلوم شخص  آکر اسے سیدھا راستہ دکھاتا تھا ۔

        ایک گاؤں میں رامو  نام کا ایک لڑکا رہتا تھا ۔ اس کے گھر میں   بہت سے جانور تھے جن میں گائے،   بھینس ، بیل، بچھڑے وغیرہ شامل تھے۔ رامو اپنے دادا کے ساتھ کبھی کبھی  جانوروں کو چرانے جنگل جایا کرتا تھا  کیونکہ وہ جنگل میں ہرے بھرے درخت، گھاس، پرندے، مور، خرگوش، لومڑی، بندر وغیرہ دیکھنا پسند کرتا تھا ۔ جب وہ جانوروں کے ساتھ جنگل میں جاتا تھا تو   راستے میں گائے کے چھوٹے بچھڑے آپس میں کھیلتے تھے اور جب جنگل میں پہنچتے تھے تو پرندے، کوے، مور، پرندے وغیرہ ان کا انتظار کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے ساتھ جانوروں نے بھی سلوک جب وہ   گھاس چرتے تو پرندے، گل، کوے۔۔۔ ان پر بیٹھ کر صابری کیا کرتے تھے ۔ مور، بندر ان کے ارد گرد گھومتے تھے اور جب گھاس چرا کر جانوروں کے پیٹ بھر جاتے تھے تو سبھی جانور دریا کا پانی پی کر دوپہر کو سایہ دار درختوں کے نیچے آرام کرتے تھے ۔ ساتھ ہی چرواہے بھی اپنا کھانا، روٹی وغیرہ گھر سے کپڑے میں باندھ کر لے جاتے، سب جانوروں کے پاس ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر آپس میں بانٹ لیتے اور دریا کا پانی پی کر آرام کرتے ۔ اس زمانے میں کوے، مور اور بیجر جانوروں کے قریب آتے تھے اور ان کے پرجیویوں کو کھاتے تھے جو گائے اور بھینسوں کا خون چوستے تھے جس کی وجہ سے جانور بھی آرام محسوس کرتے تھے ۔ اسی لیے وہ ایک دوسرے کے اچھے دوست بن گئے تھے اور اسی لیے وہ ہر روز جانوروں کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔          بے صبری سے انتظار کیا کرتے تھے۔ جانوروں میں ایک بھینس سادہ طبیعت کی تھی جس کے پاس ایک ڈرائیور بدر آکر اس کا دودھ پیتا تھا۔

ایک دن  اندھیرا چھا گیا جب وہ جنگل سے گھر آیا تو گھر آ کر دیکھا کہ اس کی چار بھینسیں گھر نہیں آئی ہیں   تو رامو کے دادا نے  دل ہی دل میں  سدھا بابا کو دعا دی  اور کہا کہ اگر ہماری بھینسیں صحیح سلامت گھر پہنچ جائیں تو آپ کو حلوہ پوری کا پرساد پیش کرتا ہوں۔ اگلی صبح رامو کے دادا لاٹھی لے کر بھینس کو ڈھونڈنے نکلے۔  دن بھر تلاش کرنے   کے بعد بھی بھینسیں نہ ملی تو تھک ہار کر   گھر واپس آئے اور کھانا کھا کر سو گئے تو اچانک آدھی رات   کو  انہیں بھینسوں کی آواز سنائی دی   ۔ جب اس نے دیکھا  کہ اس کی چاروں بھینسیں بحفاظت گھر واپس آگئی ہیں تو اسے   سدھا بابا یاد آیا اور ان کا شکریہ ادا کیا  ۔

  2-4 دن  کے بعد دادا   اپنی منت پوری کرنے کے لیے گھر سے آٹا، گھی، گڑ، چینی، پان وغیرہ   لے کر جنگل جانے کے لیے تیار تھے کہ رامو اور اس کا چھوٹا بھائی بھی ان کے ساتھ جانے کی ضد کرنے لگے۔ بہت سمجھانے کے بعد بھی وہ نہ مانے، پھر دادا نے انہیں ساتھ لے جانے پر رضامندی ظاہر کی، اب دونوں بچے خوشی خوشی  دادا کے ساتھ جنگل کی طرف پیدل چلے گئے۔ کوئی   آٹے کا بنڈل لے کر چل رہا تھا اور کوئی کڑاہی لے کر چل رہا تھا۔  تقریباً 3-4 کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد دریا کے کنارے واقع سدھا بابا کے قریب پہنچے، جہاں اس نے   پہلے   دریا میں نہایا۔ اس کے بعد دادا کی مدد کے لیے  لکڑیاں اور گوبر کی کیک جمع کیں، اس کے بعد   دادا کی رہنمائی میں کچھ بڑے پتھر جمع کر کے چولہا بنایا۔ اس کے بعد پان کو آگ پر رکھ کر دادا نے حلوہ، پوری   بنائی ۔ پالس کے پتوں میں سدھا بابا کو بھوگ چڑھایا۔ پھر سب نے پیٹ بھر کر حلوہ، پوری   کھائی ۔   اسی وقت ایک کتا وہاں پہنچ گیا، پھر اسے کھانے   کے لیے حلوہ، پوری بھی دی گئی   ، اس کے بعد   جو بچا تھا اسے لے کر سب لوگ سدھ بابا کی پوجا کر کے اپنے گاؤں اور گھر لوٹ گئے۔

No comments